Friday, April 11, 2014

ایک کمرۂ امتحاں





ایک کمرۂ امتحاں

بےنگاہ آنکھوں سے 
دیکھتے ہیں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
اَن بُنے سے لفظوں 
پَر اُنگلیاں گھُماتے ہیں
یا سوالنامے کو 
دیکھتے ہی جاتےہیں
ہر طرف کَن اَنکھیوں سے 
بچ بچا کے تکتے ہیں
دُوسروں کے پرچوں کو 
رَہنما سمجھتے ہیں

شاید اِس طرح کوئی
راستہ ہی مِل جائے
بےنِشاں خوابوں کا
کچھ پتا ہی مِل جائے
مجُھ کو دیکھتے ہیں تو
یُوں جوابی کاپی پر
حاشیے لگاتے ہیں
دائرے بناتے ہیں
جیسے اِن کو پَرچے کے
سب جواب آتے ہیں

اِس طرح کے منظر میں
امتحان گاہوں میں
دیکھتا ہی رہتا تھا
نقَل کرنے والوں کے
نِت نئے طریقوں سے
!آپ لطُف لیتا تھا
دوستوں سے کہتا تھا
!کِس طرف سے جانے یہ

آج دِل کے آنگن میں
ایک سوال آیا ہے
سینکڑوں سوالوں سا
ایک سوال لایا ہے

وقت کی عدالت میں
زندگی کی صُورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں
ایک سوالنامہ ہے
کِس نے یہ بنایا ہے
کِس لیے بنایا ہے
کچُھ سمجھ میں آیا ہے

زِندگی کے پرچے کے
سب سوال لازِم ہیں۔۔۔
!!سب سوال مشکل ہیں

بے نِگاہ آنکھوں سے
دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
اَن بُنے سے لفظوں پر
اُنگلیاں گُھماتا ہوں
حاشِیے لگاتا ہوں
دائرے بناتا ہوں
یا سوالنامے کو
!!دیکھتا ہی جاتا ہوں



شاعر:  امجد اسلام امجد


No comments:

Post a Comment