Thursday, May 1, 2014

میجر عبدالوہاب شہید( ستارہ جرأت ، تمغہ بسالت)۔



30 اپریل داخلی و خارجی خطرات کے خلاف وطنِ عزیز کے تحفظ اور سلامتی برقرار رکھنے کے لئے افواجِ پاکستان کی قربانیوں کی یاد میں
 " یومِ شہداء" منایا جاتا ہے۔  گزشتہ روز  فورس کمانڈر نادرن ایریاز ہیڈ کواٹر میں یومِ شہداء کی تقریب میں
 سر محبت اللہ
 اپنے  بھائی
 میجر عبدالوہاب شہید( ستارہ جرأت ، تمغہ بسالت)

کی یادیں  کچھ ایسے تازہ کرتے ہیں۔  



عزت مآب جناب  __________________  صاحب گلگت بلتستان،  جناب میجر جنرل حافظ مسرور احمد، فورس کمانڈر نادرن ایریاز، شہداء کے محترم لواحقین، معزز خواتین و حضرات
السلام علیکم!
آج میں جس عظیم ہستی کی کچھ یادیں تازہ کرنے آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ وہ ہیں میجر عبدالوہاب شہید( ستارہ جرأت ، تمغہ بسالت)۔ مجھے شہید موصوف کے بھائی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ شہید کا تعلق استور کے ایک پسماندہ گاؤں  رامکھ سے ہے۔ 1984 میں سترویں لانگ کورس کی کامیاب تکمیل کے بعد پاک فوج کا حصّہ بنے۔ ابتدائی پوسٹنگ  32 B R میں ہوئی ۔ جو اُن دنوں ملیر کینٹ کراچی میں تعینات تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اندرون سندھ ڈاکوؤں کا راج تھا۔ حکومت نے اُن کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا۔ تو اس کی ذمہ داری کراچی میں تعینات  32 B R  کو سونپی گئی۔ کمانڈنگ آفیسر 32 B R نے اس مقصد کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دیں۔  ایک ٹیم کی قیادت اس نوارد نوجوان آفیسر Lt. Abdul Wahab کو سونپی گئی جنھوں نے ابھی ابھی یونٹ جائن کی تھی۔  انہوں نے اس ذمہ داری کو ایک چلینج کے طور پر قبول کیا۔ اور اپنی ٹیم کو لیکر ڈاکوؤں کے تعاقب میں نکلے۔ ان کی کامیاب حکمتِ عملی اور عزمِ صمیم  کے نتیجے میں بدنام زمانہ ڈاکو علی گوہر چانڈیو ( جو سکھر جیل توڑ کر فرار ہوا تھا اور حکومت نے اُ س کے سر  کی قیمت تیس لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی)  سمیت کئی ڈاکو مارے گئے اور کئی گرفتار ہوئے۔ اور لوگوں کا سکون لوٹ آیا۔ حکومت نے اس نوجوان آفیسر کی بہادری اور جرأت کی داد تمغۂ بسالت کی شکل میں دے دی۔
معزز خواتین و حضرات!
عبدالوہاب ہیڈ کواٹر  ایف سی این اے،  سیاہ چین اور وادی لیپہ سمیت کئی ایک محاذوں پر خدمات سر انجام دینے کے بعد ترقی پا کر میجر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اُن کی اگلی پوسٹنگ 699 FIU  میں ہوئی لیکن یہ اُن کی منزل نہیں تھی۔ وہ ایک ایسے موقع کے تلاش میں تھے جہاں پر رہ کر وہ اپنے پاک فوج میں آنے کا مقصد حاصل کر سکیں ۔بلآخر اُن کے خوبوں کی تعبیر کا وقت آیا۔  1999 کے اوائل میں ہمارے روایتی حریف بھارت نے کارگل کے محاذ پر پاک فوج کو للکارا۔ پھر کیا تھا میجر عبدالوہاب کا  خون کھولنے لگا۔ گویا
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اُٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
کے مصداق بن گئے۔ جی ایچ کیو کو ایک خط کے زریعے اپنی خدمات رضاکارانہ پیش کیں۔  اولاً اُن کی درخواست اس بنا پر مسترد ہوئی کہ ان کی اکثر سروس انہی پہاڑوں میں گزری ہے۔ لیکن ان کے بار بار اسرار پر 12 NLI کے ساتھ ان کی attachment کر دی گئی۔اس موقع پر اہلیہ نے کہا کہ ساری نوکری پہاڑوں میں کی۔ اب ذرا آرام کا وقت آگیا تو ہمیں چھوڑ کر پھر انہی پہاڑوں کی طرف جا رہے ہو۔ اُنہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے فکر نہ کرو۔ اگر میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ تو تمھیں دونوں جہانوں میں وہ کچھ ملے گا۔ جس کا تم تصّور بھی نہیں کر سکتی۔ اِس پر اس صابر و شاکر خاتون نے استقامت اور سلامتی کی دعا کے ساتھ اپنے سہاگ کو الوداع کہا۔ یوں آڈر ملنے کے چند ہی دنوں کے بعد 12 NLI     پہنچے تو معلوم ہوا۔ کہ اس وقت    12 NLI کے بجائے 6 NLI     زیادہ موثر انداز میں دشمن سے نبرد آزما ہے۔ اپنا تبادلہ  6 NLI کروایا۔ کمانڈنگ آفیسر 6 NLI کرنل سلیم صاحب نے اُن سے کہا  آپ سینئر ترین میجر ہیں لہٰذا    2 IC    کی خدمات سر انجام دیں۔  اس پر میجر عبدلوہاب نے کہا۔ سر میں یہاں آرام کرنے نہیں لڑنے آیا ہوں۔ مجھے وہاں بھیج دیں جہاں مادرِ وطن کو میری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یو ں یہ نڈر سپوت چند سپاہیوں کو ساتھ لیکر سب سے اگلے محاز پر پہنچے۔ محاذ پر موجود  زخمی لفٹین کی مرحم پٹی کی۔ اُنہیں یونٹ ہیڈ کواٹر بھیجوایا۔ اور خود کمان سنبھالی۔ یہ وہ محاذ تھا جہاں پر دشمن کا سب سے زیادہ دباؤ تھا۔ میجر عبدالوہاب اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے اور کئی دنوں تک اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن کو روکے رکھا۔ اس دوران کئی ایک سپاہی زخمی بھی ہوئے اور کئی ایک نے جامِ شہادت نوش کیا۔ خود میجر صاحب کے کندھے اور بازؤں پر کئی گولیاں لگیں۔ پوسٹ پر موجود سپاہی شان نے کہا۔ سر آپ زخمی ہیں آپ یونٹ ہیڈ کواٹر واپس چلے جائیں۔ کہا لگے شان! جب تک اس جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہے۔ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ یوں اس اللہ کے شیر نے یہ کہتے ہوئے یہ جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
معزز سامعیں!
آج بھی میجر عبدلوہاب اور کئی شہداء کے جسدِ خاکی  کارگل کی پہاڑیوں سے پکار پکار کر یوں صدا دیتے ہیں۔
ہم لائے ہیں طوفاں سے کشتی نکال کے
اس دیس کو رکھنا میرے بچو  سنبھال کے
حکومتِ پاکستان نے ان کی بہادری ، جرأت اور اعلیٰ عسکری خدمات کے صلے میں انہیں ستارۂ جرأت سے نوازا۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ماشاءاللہ ہر ایک باپ کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ دو بیٹے کپٹن صلاح الدین وہاب   اپنے باپ کی یونٹ جب کے جمالدین وہاب 41   single BN    میں اپنے باپ کے روایات کا آمین بنے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
آخر میں میں ہیڈ کواٹر ایف سی این اے کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ جنہوں نے شہدا کے لواحقین کا دکھ درد بانٹنے کے لیے یہاں جمع کیا۔ امید ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح داد رسی فرماتے رہینگے۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و آمان میں رکھے۔ اور پاکستان آرمی کو اپنے ارادوں اور مقاصد میں کامیابی عطا فرمائیں۔آمین!
شکریہ
والسلام







 سر محبت اللہ اور اُُن کے بیٹے میرے آفس میں






اللہ تعالیٰ ارضِ پاک کو میلی نظروں سے بچائے۔آمین

No comments:

Post a Comment