Monday, July 29, 2013

Get Well Soon!






روایات میں ہے کہ،
، کائنات میں کوئی اتنی شدت سے کسی کا انتظار نہیں کرتا 
 " جتنا کہ اللہ اپنے بندے کی توبہ کا کرتا ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حضرت موسیٌٰ کلیم اللہ ۔۔۔۔ اللہ کے نہایت چہیتے رسول تھے۔ ایک دفعہ ان کے دل میں خیال آیا 
کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ گنہگار بندہ کون ہوگا۔ یہ سوچ کر وہ کوہ طور پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے اور عرض کیا۔
" اے اللہ! روئے زمین پر سب سے زیادہ گنہگار بندہ کون ہے"
 "اللہ تعالیٰ نے فرمایا " فلاں ابنِ فلاں 
"آپٌ نے پھر عرض کیا۔ "اے اللہ! وہ شخص کہاں ملے گا میں اُسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کل فلاں جنگل کو جانے والے راستے پر اس کا انتظار کرنا۔ جو آدمی سب سے پہلے اُس راستے سے ہو کر جنگل میں جائے گا وہی شخص ہو گا۔
اگلے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام صبح سویرے اُسی مقام پر پہنچے اور ایک درخت کی اوٹ میں ہو  کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آتا ہوا دیکھائی دیا جب وہ نزدیک پہنچا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ ایک پختہ عمر کا آدمی ہے اُس نے اپنی گود میں ایک چھوٹے بچے کو اُٹھایا ہوا ہے جس سے باتیں کرتا ہوا وہ جنگل میں داخل ہوا اور گھنے درختوں میں آگے بڑھتا چلا گیا حتی کہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی باہر نکل آئے اور دوبارہ کوہ طور کی جانب چل دئیے۔ راستے میں انھیں یہ خیال آیا کہ سب سے زیادہ گنہگار بندے کو تو میں نے دیکھ لیا اب کیوں نہ سب سے کم گنہگار بندے کے بارے میں بھی جا کر پتا کر لیا جائے۔
  وہ کوہ طور پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو کر عرض کیا کہ،"  اے اللہ! میں نے سب سے زیادہ گنہگار بندے کو دیکھ لیا ہے اب میں سب سے کم گنہگار بندے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ جس جگہ تم نے گنہگار بندے کو دیکھا تھا وہیں جا کر انتظار کرنا۔ وہ بندہ غروبِ آفتاب کے وقت جنگل کی طرف سے آئے گا۔ 
موسیٰ علیہ السلام  سورج غروب ہونے سے پہلے وہاں پہنچ گئے اور انتظار کرنے لگے۔ غروب آفتاب کے وقت کیا دیکھتے ہیں کہ وہی صبح والا بندہ اُسی چھوٹے بچے کو اٹھائے واپس آ رہا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکا کہ ایک بندہ جو صبح روئے زمیں پر سب سے زیادہ گنہگار تھا اب روئے زمیں پر سب سے نیک بندہ کیسے ہو گیا۔
یہی بات دل میں لیے وہ کوہ طور کی جانب روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر عرض کیا،" اے اللہ! یہ کیسے ممکن ہوا کہ سب سے زیادہ گنہگار بندہ یکدم نیک بندہ بن گیا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اس بندے نے جو بچہ اٹھایا ہوا تھا وہ اُس کا پوتا ہے۔ صبح کو جب یہ لوگ گھر سے باہر آئے تو گھر کے باہر میدان کو دیکھ کر بچے نے اپنے دادا سے کہا کہ دادا یہ میدان کتنا بڑا ہے ہمارے گھر سے بھی بڑا!
اس شخص نے بچے سے کہا کہ اس میدان سے بڑا وہ جنگل ہے جس میں ہم جا رہے ہیں۔
بچے نے پوچھا کہ اس جنگل سے بڑا بھی کچھ ہے؟
اُس شخص نے جواب دیا۔ ہاں، جنگل سے بڑا پہاڑ ہے۔
بچے نے پھر پوچھا کہ پہاڑ سے بڑی بھی کوئی چیز ہے؟
اُس شخص نے جواب دیا کہ ہاں، پہاڑ سے بڑی چیز سمندر ہوتی ہے۔ پہاڑ اُس میں ڈوب جاتا ہے۔
بچے نے پھر پوچھا کہ سمندر سے بڑی کوئی چیز ہے؟
اُس نے جواب دیا کہ ہاں، سمندر سے بڑی زمین ہے۔ 
بچے نے پھر پوچھا کہ زمیں سے بھی کوئی چیز بڑی ہے؟
اس نے جواب دیا۔ کہ ہاں، زمین سے بڑا سورج ہے۔
؟.......بچے نے پھر پوچھا کہ سورج سے بڑی چیز
اُس نے کہا کہ ستارے سورج سے بڑے ہوتے ہیں۔
؟.........بچے نے پھر پوچھا کہ ستارے سے بڑی کوئی چیز
اُس نے کہا،   کائنات۔
بچے نے پھر پوچھا کائنات سے بڑی کیا چیز ہے؟
تو اس نےجواب دیا کہ میرے گناہ۔
بچے نے پوچھا کہ آپ کے گناہ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے؟
جواب دیا ہاں، ایک چیز ایسی ہے کہ جو میرے گناہوں سے بھی بڑی ہے۔ اور وہ ہے اللہ کا کرم اور رحمت! اور اِس سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔
اس پر اللہ نے فرمایا کہ جب اُس بندے نے یہ کہا تو میری  رحمت نے جوش مارا اور میں نے اُس بندے کے سارے گناہ معاف کر دیئے۔
اُس کے بعد ابھی تک اُس بندے نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اِ س لیے روئے زمین پر اس وقت وہ بندہ سب سے زیادہ نیک بندہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





No comments:

Post a Comment