قرآن کی ضرورت و اہمیت
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے ہے کہ رات کی تاریکی میں آنکھیں
پھاڑ پھاڑ کر بھی دیکھیں تو کچھ نہیں دیکھ سکتے جب کہ ان ہی آنکھوں سے آپ دن کے
وقت آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔
اگر آپ رات کے وقت بیٹھ کر پڑھ رہے ہوں اور اچانک بجلی چلی
جائے یا آپ کا لیمپ بجھ جائے تو آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہیں گی لیکن آپ کو کچھ
سجھائی نہیں دے گا اور جب بجلی آ جائے گی یا آپ لیمپ دوبارہ جلا لیں گے تو ہر چیز
روشن ہو جائے گی۔
آپ یہ جانتے ہیں کہ دیکھنے کے لیے صرف آنکھوں کی بینائی ہی
کافی نہیں بلکہ کسی خارجی روشنی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ وہ روشنی خواہ سورج کی ہو
یا لیمپ کی۔ گویا کسی بھی مادی چیز کو دیکھنے کے لئے ہمیں ایک داخلی روشنی چاہئیے
جو ہماری نگاہ ہے اور ایک خارجی روشنی کی ضرورت ہے۔
اسی طرح جب ہم ان چیزوں میں امتیاز کرنا چاہتے ہیں جن کو
ہماری ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں مثلاً کون سا کام نیکی ہے اور کون سا بُرائی؟
ایمان کیا ہے اور کفر کیا ہے؟ ان چیزوں کو جانچنے کے لئے ہمارے پاس
ایک داخلی روشنی ہے اور وہ ہے عقل، لیکن ابھی ہم نے پڑھا ہے کہ داخلی روشنی اس
چیزوں میں امتیاز کر سکتی ہے جب کہ کوئی خارجی روشنی بھی موجود ہو۔ پس ہم غیرمادی
چیزوں کی حقیقت جاننے کے لئے ایک خارجی روشنی کے محتاج ہیں اور وہی روشنی قرآن ہے۔
قَد جآءَ کُم مِن اللّهِ نورٌ و کتابٌ مبينٌ
" تمہارے پاس اللّہ کی طرف
سے روشنی اور کھلی کتاب آئی ہے۔"
اگر
اندھیرے میں کوئی کتاب ہمارے ہاتھ میں آجائے تو ہم یہ تو محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ
کتاب ہے لیکن روشنی کے بغیر یہ نہیں جان سکیں گے کہ یہ کون سی کتاب ہے، کس موضوع
پر ہے، اس میں کس کس صفحے پر کیا کیا لکھا ہے؟ اس طرح صرف عقل کی روشنی سے
ہم بعض حقیقتوں کو کسی حد تک جان سکتے ہیں لیکن مکمل روہنمائی اور ہدایت کے لئے
قرآن کی روشنی ضروری ہے۔ اس لیے اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنْزِلَ مَعَهُ
"اس روشنی کا اتباع کرو جو رسول
اللّہ کے ساتھ اُتاری گئی ۔"
جب
تک ہمارے جسم اور روح کا تعلق باقی ہے ہم انسان ہیں اور جب یہ تعلق ختم ہو جائے تو
انسانی لاش ہیں۔ گویا انسان دو چیزوں سے مل کر بنتا ہے: جسم اور روح۔
ہمارا
جسم مٹی سے بنا ہے اس لیے ہمارے جسم کی تمام ضرورتیں مٹی سے ( زمین سے ) حاصل ہوتی
ہیں۔ ہمیں غذا کی ضرورت ہے۔ بیمار ہوں تو دوا چاہیئے۔ ہمیں لباس اور مکان ہی نہیں
آرائش و زیبائش کا سامان بھی چاہیئے۔ ہمیں اپنے دفاع کے لئے اسلحے کی بھی ضرورت
ہے۔
آپ
اپنی بے حساب جسمانی ضرورتوں کا تصّور کریں اور پھر غور کریں کہ ان میں سے ہر چیز
بالواسطہ یا براہ راست زمیں سے حاصل ہوتی ہے۔
لیکن
انسان صرف جسم کا نام تو نہیں، اس میں ایک روح بھی ہے، اگر ہمیں پیاس محسوس ہو تو
ہماری پیاس بجھانے کے لئے روئے زمین پر بےشمار چشمے ابل رہے ہیں۔ لیکن ہماری روح
کو پیاس لگے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ہمارے بدن اور کپڑوں کا میل کچیل صاف کرنے کے لیے
قسم قسم کے صابن موجود ہیں لیکن اگر ہماری روح میلی ہو جائے تو اسے صاف کرنے کے
لیے کیا کریں؟ ہمیں پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو انہیں نکالنے کے لیے اَن گنت
سوئیاں دستِ یاب ہیں۔لیکن اگر ہماری روح میں شک اور بے یقینی کے کانٹے چبھ جائیں
تو انہیں نکالنے کے لیے سوئی کہاں سے لائیں؟ اگر ہمارا جسم بیمار پڑ جائے تو
علاج کے لیے ڈھیروں دوائیاں موجود ہیں اور اگر ہم بیمار پڑ جائیں تو اس کا علاج
کیسے کریں؟
جب
اللّہ نے ہماری معمولی سے معمولی جسمانی ضرورت کا اس قدر خیال رکھا ہے کہ زمین کے
خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں تو کیا اس نے ہماری روحانی ضرورتوں کا خیال نہیں
رکھا ہوگا، یقیناً رکھا ہے اور اس کی حکمت دیکھئے کہ،
جسم
مٹی سے بنا ہے اس لیے اس کی تمام ضرورتیں مٹی سے پوری کرنے کے لئے زمین بچھا دی،
اور روح عالم بالا کی چیز ہے اس لیے اس کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کے لیے عالم
بالا سے قرآن اتارا اور ارشاد فرمایا:
وننزّل من القرآن ما هو
شفاء ورحمة للمؤمنين
"اور ہم قرآن اتارتے
ہیں جو سراپا شفا ہے اور ایمان والوں کے لیے باعث رحمت۔"
جس
طرح اللّہ کے بہت سے نام ہیں مثلاً الرحمن، الرحیم، الصمد، الملک، القدوس وغیرہ
اسی طرح قرآن کے بھی بہت سے نام ہیں مثلاً
الکتاب۔
خاص کتاب یعنی اللّہ کی کتاب
الفرقان۔
حق اور باطل میں فرق کرنے والی
الذکر۔
نصیحت
النّور۔
روشنی
الشفاء۔
پیام صحت
وغیرہ،
لیکن سب سے زیادہ مشہور قرآن ہی ہے۔
ہماری
انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اصولی طور پر
قرآن حکیم میں راہنمائی موجود نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment