اُس دن میں صبح سویرے اپنے کمرے میں ایک اسائمنٹ پر کام کر
رہا تھا۔ جب شاہ جہان صاحب میرے کمرے میں آئے اور اِس درد ناک واقعہ کے بارے
بتایا۔ سُنتے ہی درد کی ایک لہر دل کی دیواروں میں دھراڑیں بناتی ہوئی گہرائی میں
اُتر گئی۔ اور آنکھوں میں وہ تمام مناظر
کے سلائیڈز چلنے لگے جن میں ، میں
اُس کا مصوم چہرہ دیکھتا آیا تھا۔ کبھی سکول کے گلیاروں میں کھیلتا ہوا، کبھی
مایون خان کی اُنگلی تھام کر سکول سے آتا ہوا، کبھی سر مجیر کے آفس میں چیزوں کو چھیڑتا ہوا، اور کبھی مسجد میں
آخری صف سے بابا، بابا کی آوازیں دیتا
ہوا۔۔۔
تازہ یادیں یہ ماننے سے روک رہی تھی کہ اب اُسے پھر سے زندہ
دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ بیس دن پہلے معاویہ مجیر والدین کے ہمراہ امپھری، گلگت میں
اپنے رشتہ داروں کے یہاں گئے تھے۔ عشاء کے نماز کے لیے جب اُس کے والد مسجد جانے
لگے۔ تو ساتھ ہو لیے۔ رستے میں دکان سے ٹافیاں لی۔ ایک لیکر بقایہ اپنے بابا کے
پاس یہ کہہ کر رکھوائی کہ بعد میں لے گا۔
مسجد پہنچے۔ وضو بناتے ہوئے اُس کے والد بیٹے کے آخری الفاظ سُنتے ہیں جو کسی سے یہ کہہ
رہے ہے کہ" انکل جوتوں کے ساتھ مسجد میں نہیں آتے، گناہ ہوتا ہے۔"اُسی
وقت کے بعد سے معاویہ کسی کو نظر نہیں آئے۔ خود ڈھونڈا، تھانے میں رپورٹ لکھوائی،
اہل محلہ نے مل کر ڈھونڈا لیکن کوئی خبر نہیں۔ اگلی صبح نزدیکی کھیتوں سے اُس کی
نعش ملی۔اڑھائی، تین سالہ معصوم کے قتل نے انسانیت کے منہ پر ایک بار پھر کالک مل
دی ۔
وہ خود معنی کیا دشمنی کا لفظ تک نہیں جانتا تھا۔ اور اُس
کے والدین بھی جواساتذہ ہونے کے ناطے اہل
علاقہ کے گلشن کی آبیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ تو خود اُن کے گلشن میں آگ لگانا کیوں
اور کس لیے؟؟؟؟؟؟۔۔۔ اُس معصوم نے کسی کا
کیا بیگاڑا تھا؟؟؟؟؟
بچپن میں شہادت
پانے پر وہ یقیناً جنت کے کسی باغ میں مہک رہا ہوگا۔ اِس دعا کے ساتھ کہ
اللہ تعالیٰ اُس کے والدین سر مجیر اور
میڈم زینب کو صبرِ جمیل اور معاویہ
کا نعم البدل عطاء فرمائیں۔ اور اُس کے قاتلوں
بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ آمین!
آپ سب سے گزارش
ہے کہ خدارا اپنے معاویہ کو اپنے نظروں میں ہی رکھیں۔
معاویہ کی کچھ
تصویریں
پروفیسر مجیر احمد عمر
وائس پرنسپل
پبلک سکولز اینڈ کالجز جُٹیال گلگت
رابطہ نمبر: 03126455777
No comments:
Post a Comment