Saturday, September 21, 2013

ایک والد کا خط بیٹے کے استاد کے نام







"
ایک والد کا خط بیٹے کے استاد کے نام

اسکے سکول کے پہلے دن "





" ایک والد کا خط بیٹے کے استاد کے نام
اسکے سکول کے پہلے دن "


اُس کو سیکھنا ہوگا، میں جانتا ہوں تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، تمام لوگ سچے نہیں ہوتے۔ لیکن اُس کو سکھاؤ کہ ہر بدذات شخص کے ساتھ ایک اچھا آدمی ہوتا ہے۔ کہ ہر خود غرض سیاسی راہنما کے ساتھ ایک جانثار رہنما ہوتا ہے۔
اُس کو سکھاؤ کہ ہر دشمن کے ساتھ ایک دوست ہوتا ہے۔ یہ وقت لے گا میں جانتا ہوں۔ مگر اُس کو سکھاؤ اگر تم سکھا سکو کہ ایک ڈالر ذیادہ اہمیت رکھتا ہے بنسبت پانچ پونڈ کے، اُسکو سکھاؤ کہ ہارا کیسے جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ کہ جیت کی خوشی کیسے منائی جاتی ہے، اسکو حسد سے دور رکھو اگر تم رکھ سکو، اُس کو خاموش ہنسی کا راز سکھاؤ۔

Let him learn early that bullies are easiest to lick.
اُس کو سکھاؤ اگر تم سکھا سکو کہ کتابوں میں کیا خزانے پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس کو اتنا وقت ضرور دو کہ وہ بیرونی دنیا جیسے آسمان میں اڑنے والے پرندوں، سورج کی روشنی میں مکھیوں اور ہرے ہرے پہاڑوں پر پھولوں کے بارے میں بھی سوچے۔
اُس کو سکھاؤ کہ نقل کرنے سے فیل ہونا زیادہ اچھی بات ہے۔ اسکو سکھاؤ کہ وہ اپنی سوچ پر بھروسہ رکھے اگرچہ ہر کوئی اسے یہ کہے کہ وہ غلط ہے۔ اُسکو سکھاؤ کہ نرم مزاج لوگوں کے ساتھ نرم مزاج رہے اور سخت مزاج لوگوں کے ساتھ سخت رہے۔

میرے بیٹے کو ایسی قوت بخشو کہ وہ ہجوم کے پیچھے نہ جائے۔ چاہے وہ سب کسی جلسے ہی میں کیوں نہ شامل ہوں۔ اُسکو سکھاؤ کہ ہر شخص کو سُنیں مگر اُسکو سکھاؤ کہ تمام لوگوں کی باتوں کو سچائی کے زمرے میں چھانے اور صرف اچھی باتوں کو لے لے۔ اُسکو سکھاؤ اگر سکھا سکو کہ کیسے ہنسنا چاہئے جب وہ اُداس ہو، اُسکو سکھاؤ کہ آنسو بہانے میں کوئی شرم نہیں، اُسکو سکھاؤ کہ بدگمان پر طنز کرے اور بہت زیادہ میٹھی میٹھی باتوں سے خبردار رہے۔ اُسکو سکھاؤ کہ اپنی جسمانی اور ذہنی طاقت کسی اچھے خریدار کو فروخت کرے لیکن کبھی اپنے دل اور روح پر قیمت نہ لگائے، اُسکو سکھاؤ کہ چیخنے والے لوگوں کے سامنے اپنے کان بند کر دے اور ثابت قدم ہو کر لڑے اگر وہ سوچتا ہے کہ وہ صحیح ہے، اُس سے نرمی کا برتاؤ کرے مگر اُسے زیادہ لاڈ مت کریں کیونکہ آگ سے گزر کر ہی پیتل اچھی صورت اختیار کرتا ہے۔ اُسکو حوصلہ دو کہ وہ بے صبر نہ بنے، اُسکو صبر سکھاؤ کہ وہ بہادر بنے، اُسکو سکھاؤ کہ وہ انسانیت پر بلند بھروسہ رکھے۔

یہ ایک بہت بڑا حکم ہے مگر دیکھو کہ تم کیا کر سکتے ہو۔
میرا بیٹا بہت ہی اچھا اور چھوٹا بچہ ہے۔

والد ابراھیم لنکن


9th & 10th Mid Term 2013 Result (Boys Wing)

9th & 10th Result Mid Term 2013 (Girls wing)

Tuesday, September 17, 2013

گفتگو کا آرٹ

 شفیق الرّحمٰن کی کتاب 
" مزید حماقتیں"
سے ایک اقتباس


گفتگوکاآرٹ

جو کچھ کہنے کا ارادہ ہو ضرور کہیے،  دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیئے ، وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ ورنہ جتنی دیر جی چاہے باتیں کیجئے۔ اگر کسی اور نے بولنا شروع  کر دیا تو موقعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔
چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی ۔  یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کر دیجئے ۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا، تو بیشک جمائیاں لیجئے۔   کھانسیئے۔  بار بار گھڑی دیکھئے   ۔۔۔۔۔۔۔  " ابھی آیا "   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کہہ کر باہر چلے جائیے،   یا وہیں سو جایئے۔
یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پرشبہ ہو جائے گا۔  مجلسی تکلفات بہتر ہیں یا اپنی ذہانت پر شبہ کروانا؟
البتہ لڑیئے مت کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتاہے۔
کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اُسے کبھی مت مانیے۔  لوگ ٹوکیں تو اُلٹے سیدھے  دلائل بلند آواز میں پیش کر کے اُنہیں خاموش کرا دیجئے ورنہ وہ خواہ مخواہ سر پر چڑھ  جائیں گے۔   دورانِ گفتگو میں لفظ " آپ " کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیئے۔  اصل چیز  " میں"   ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔
تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کیجئے۔ کبھی کسی کی تعریف مت کیجئے۔ ورنہ سُننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ اُسے کسی کام کے لیے کہنا چاہتے ہیں۔   اگر کسی شخص سے کچھ پُوچھنا مطلوب ہو جسے وہ چُھپا رہا ہو تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑا دیجئے۔  وکیل اسی طرح مقدمے جیتتے ہیں۔ 






Friday, September 6, 2013

رام دین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از ممتاز مفتی



رام دین۔   از ممتاز مفتی



آج کل ہم پر ایک جنون سوار ہے، کہتے ہیں نوجوانوں کو پاکستان کی آئیڈ یالوجی سمجھاؤ۔ بڑی
بڑی عالمانہ کتابیں لکھی جا رہی ہیں کہ پاکستان کیوں معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کا مسلک کیا ہے؟
تاریخی پہلو، اقتصادی پہلو، سیاسی پہلو، ہر پہلو پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
میری دانست میں یہ سب باتیں بیکار ہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ پاکستان کو صرف وہ شخص سمجھ
 سکتا ہے۔ جس نے رام دین کو دیکھا ہے، سمجھا ہے، جانا ہے۔
میں نے رام دین کو
۱۹۳۴ء میں دھرم سالا کے نواحی دیہات میں دیکھا تھا۔ ان دنوں میں
دھرم سالا میں انگلش ٹیچر تھا۔
۱۹۱۸ء میں پہلی جنگ عظیم کا سانپ نکلا تھا۔ سال بعد برصغیر پر اس کی لکیریں ابھریں۔ مالی
انحطاط کا جن بوتل سے نکلا اور دھواں بن کر برصغیر پاک و ہند پر چھا گیا۔ دفتروں میں تخفیف، گریڈوں میں تخفیف، تخفیف ہی تخفیف۔
 بدقسمتی سے میں تحصیل علم سے فارغ ہو کر اس وقت سنٹرل ٹریننگ کالج سے باہر نکلا۔ جب ملازمت حاصل کرنے کے جملہ راستے مسدود ہو چکے تھے۔ بڑی دوڑ دھوپ کی، سفارشیں کروائیں، پھر کہیں تعلیم کے انسپکٹر صاحب نے وعدہ کیا کہ جب کوئی ماسٹر چھٹی پر جائے گا تو عوضی پر لگا دوں گا۔ وہ بھی نچلے گریڈ میں۔
پہلی عوضی مجھے خانیوال میں ملی، دوسری دھرم سالا میں۔ میں جو بٹالے کا رہنے والا تھا اور لاہور میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ مجھے علم نہ تھا کہ پنجاب میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اقلیت کے مفہوم کا شعور ہی نہ تھا۔ کیسے ہوتا؟ بٹالے میں ہندو اقلیت میں تھے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مسلمان ہندوؤں کے ساتھ گھل مل کر رہتے
تھے، شادی اور فوتگی پر مل جل کر بیٹھتے۔ شادی مین آپس میں بھاجیاں بانٹی جاتی تھیں۔
دھرم سالہ میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ اس اقلیت کا یہ عالم تھا کہ سارے سکول میں صرف دو مسلمان طالب علم تھے اور میں واحد مسلمان ٹیچر تھا۔
میری مشکل یہ ہے کہ میں پانی بہت پیتا ہوں اور بار بار پیتا ہوں۔
رام دین سے میری ملاقات صرف پانی پینے کی وجہ سے ہوئی۔ اگر میں بار بار پانی پینے کا عادی نہ ہوتا تو شاید رام دین کے وجود سے کبھی واقف نہ ہوتا۔
ایک روز سکول میں، میں نے ایک ہندو لڑکے سے کہا: مجھے ایک گلاس پانی لا دو۔ لڑکا میری
بات سن کر ادب سے سر جھکائے کھڑا رہا۔ میں نے دوبارہ کہا تو بڑے ادب سے بولا " ماسٹر جی،
میں آپ کو پانی نہیں پلا سکتا۔"
" کیوں" ؟  میں نے حیرت سے پوچھا۔
" جناب میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا"
 میں ہنس پڑا۔ بولا برخوردار!  دھرم بھرشٹ تو تب ہوتا ہے جب تم میرے ہاتھ کا پانی پیئو۔
مجھے پانی پلانے سے تو دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا"۔
میری دلیل کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ ادب سے سر جھکائے جوں کا توں کھڑا رہا۔
ان دنوں مجھے یہ شعور نہ تھا کہ دھرم بھرشٹ ایک جزبہ ہے جسے نہ عقل سے تعلق ہے نہ
 دلیل سے۔ اور ہندو اقلیت کے علاقے میں اس کا مفہوم اور ہے اور ہندو اکثریت کے علاقے میں اور۔
مجھے پتہ تھا کہ ہندو مسلمان کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتے۔ لیکن پانی پلانے کو تو پن سمجھتے تھے۔
یہ اور بات تھی کہ وہ مسلمان سے اپنا برتن دور رکھتے تھے۔ اس دوری کا قائم رکھنے کے لئے انہوں
نے کئی ایک طریقے ایجاد کر رکھے تھے۔ مثلاً ایک طریقہ یہ تھا کہ بانس کا ایک ٹکڑا لیتے، اسے کاٹ
کرایک نالی بنا لیتے۔ اس نالی کے ایک سرے پر وہ اپنی گڑوی سے پانی ڈالتے، دوسرے سرے پر مسلمان
اوک سے پانی پیتا۔
ریلوے سٹیشنوں پر گاڑی رکتی تو آوازیں سنائی دیتیں۔ " ہندو پانی" " مسلمان پانی" ہندو
مسافر تو " ہندو پانی" کا انتظار کرتے تھے۔ مسلمان دونوں پانیوں میں فرق نہ جانتے۔ بے تکلف ہندو پانی
پیتے اور پانی پلانے والا جو حقارت بھرا فاصلہ قائم رکھتا اسے مطلق برا نہ مانتے۔
دھرم سالا میں دھرم بھرشٹ کا یہ نیا مفہوم جان کر میں حیران ہوا۔ یہ بات میری سمجھ میں
نہ ّئی کہ دھرم بھرشٹ کا یہ مفہوم نیا نہیں بلکہ ان علاقوں کا مروجہ مفہوم ہے جہاں ہندو اکثریت
میں ہیں۔
اس واقعے سے جند روز بعد مجھے ہندو اکثریت کے علاقے کی وہ تخلیق نظر آئی جس کا نام
رام دین ہے۔
چھٹی کا دن تھا۔ دھرم سالا کے مناظر تھے۔ میں نے کہا چلو، گھوم پھیر کر دن گزاریں۔
پہاڑوں کی پگڈنڈیوں پر گھومتا پھرتا آٹھ دس میل دور نکل گیا۔
راستے میں پیاس لگی۔ چشمے تو وہاں جگہ جگہ رس رہے تھے۔ لیکن پینے سے ڈرتا تھا۔ اس لئے
کہ سرکار نے جگہ جگہ بورڈ لگا رکھے تھے:
" ہر خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ کسی چشمے کا پانی نہ پیئں جب تک وہاں سرکاری بورڈ نہ لگا ہوکہ
" پانی پینے کے قابل ہے"
اس احتیاط کی وجہ یہ تھی کہ علاقے کے پانی میں کوئی ایسی دھات پائی جاتی تھی جو گلے میں
بیٹھ جاتی اور گردن پر گلہڑ نکل آتا۔
بہرحال پانی کی تلاش میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں جا پہنچا۔ ایک دکان دار لالہ جی سے
پوچھا" جی یہاں سے پینے کا پانی مل جائے گا؟"
لالہ جی نے غور سے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا، اور بولا، " مسلمان"؟
میں انے اثبات میں سر ہلا دیا، "جی"
لالہ بولا " وہ سامنے گھر مسلمان کا ہے ۔ وہاں سے پی لو"
سامنے گھر کے اندر جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تازہ گوبر کی لپائی ہو رہی ہے، باورچی خانے میں
چوکا بنا ہوا ہے۔ بالکل جیسے رسوئی میں ہوتا ہے۔ کٹوریاں اور تھالیاں پڑی ہیں، بالکل ایسی جیسے ہندو
گھروں میں ہوتی ہیں۔
میں نے سوچا! یہ تو مسلمان کا گھر نہیں ہو سکتا۔ لالہ جی نے شاید کسی اور گھر کی طرف اشارہ
کیا ہو۔ اتنے میں اندر سے ایک شخص باہر نکلا۔ نیچے لڑوالی دھوتی، اوپر ننگا بدن، گلے میں جنئیو، سر پر
اتنی لمبی گھنی بودی!
میں نے کہا " مہاراج، یہاں مسلمان کا کوئی گھر ہے"؟
بولا " ہاں مہاراج، یہی تو ہے۔ یہ میرا گھر ہے۔"
حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
اللہ !  یہ کیا تماشہ ہے! یہ گوبر کا چوکا، یہ جنئیو، یہ بودی اور مسلمان! " تم مسلمان ہو"؟ میں نے
اس سے پوچھا۔
" جی " وہ بولا۔
" کیا نام ہے تمہارا"؟
" جی رام دین "
نہ جانے میں کتنی دیر پھٹی پھٹی آنکھوں سے رام دین کو دیکھتا رہا۔
پھر اس علاقے میں گھومتے گھومتے بیسیوں رام دین دیکھے اور مجھے احساس ہوا کہ رام دین فرد
واحد نہیں بلکہ ایک قوم ہے۔ ہندو اکثریت کے علاقے کی تخلیق کردہ قوم۔
اگر پاکستان نہ بنتا تو یہ بات خارج از امکان نہیں کہ آج میں بھی ایک رام دین ہوتا۔ صرف میں
ہی نہیں شاید آپ اور ہم سب رام دین ہوتے۔ ہمارے سروں پر چوٹیاں نہ ہوتی، گلے میں جنئیو نہ
ہوتے، گھروں میں گوبر کی لپائی نہ ہوتی، اس کے باوجود ہم رام دین ہوتے۔ رام دین ایک ذہنیت کا نام
ہے جو خود اختیار نہیں کی جاتی بلکہ جسے اکثریت ایک منصوبے کے تحت پیدا کرتی اور ذہن سے آہستہ
 آہستہ لباس ، گفتگو اور جسم تک پہنچتی ہے۔
لیکن ٹھہریئے۔ رام دین پر ہنسیئے نہیں۔ اگر رام دین نہ ہوتا تو پاکستان کبھی وجود میں نہ آتا سچی
بات یہ ہے کہ رام دین کا اولین بانی ہے۔
عرب ملک عرب اور غیر عرب کے چکر میں پڑے ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جسے رام دین سے
گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ یہ اسی لئے وجود میں آیا کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ رام دین بن کر جئیں۔
بھارتی مسلمان رام دین سے واقف نہیں بلکہ وہ رام دین بیت رہے ہیں۔
دقّت یہ ہے کہ جنہوں نے پاکستان بنانے کے لئے جدو جہد کی تھی، وہ تو لد گئے۔ پرانے پتے
سوکھ کر جھڑ گئے، ان کی جگہ نئی کونپلیں پھوٹی ہیں، جنہیں رام دین کا شعور نہیں۔ کیسے شعور ہو؟
پاکستان میں لاکھوں ہندو مقیم ہیں ان میں کوئی بھی تو " اسلام چندر " نہیں۔ پھر وہ رام دین کو کیسے سمجھیں۔؟؟؟؟؟
ٌٌ
******************